قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ انتظامیہ بخوبی جانتی ہے لیکن ان کی نظر میں قصور وار پرچون فروش ہیں،
(گل بخشالوی) رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ جو کیلا 80 روپے درجن بڑی آسانی کے ساتھ مل جاتا تھا۔ اب وہ دو سو روپے پر جا پہنچا اور لیموں کے قیمت جو چند روز پہلے تک ایک سو روپے فی کلو گرام تھے، بڑھ کر4 سو روپے ہو گئے ہیں قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ انتظامیہ بخوبی جانتی ہے لیکن ان کے نظر میں قصور وار پرچون فروش ہیں، جب تک کھیت سے سبزی اور باغ سے فروٹ براہ ِ راست منڈی اور منڈی سے پرچون فروش کے پاس نہیں آئیگی خد ساختہ مہنگائی کا جن قابو نہیں آ سکتا لیکن یہ تو تب ہو گا کہ ڈ پٹی کمشنرز اپنے اپنے اضلاع میں رمضان المبارک سے دس دن قبل تمام سرد خانوں( کولڈ ستوریج ) کی بجلی لائین کاٹ دیں لیکن ایسا ممکن اس لئے نہیں کہ سرد خانوں کے مالک حرام کی کمائی تنہا نہیں کھالتے اپنے سر پرستوں کو بھی کھلاتے ہیں ، اور اگر انتظامیہ کا کوئی کوئی صاحب ِ ایمان حرام خوری سے پرہیز کرے تو وہ سرد خانوں کے مالکان کے خلاف بول بھی تو نہیں سکتے خاموشی سے رمضان سستا بازار لگوا کر شہریوں کو حرام خوروں کے ر حم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں پنجاب کے جنوب ایک بڑے شہر میں ڈپٹی کمشنر نے اپنے ایک انتہائی قابل اعتماد معاون کے ذمے لگایا کہ وہ شہر کے کولڈ سٹوریج کی تفصیلات اور ان کے مالکوں کے کوائف جمع کرے۔تین چار روز کی محنت کے بعد پتہ یہ چلا کہ شہر میں 16 کولڈ سٹوریج تھے۔ یہ تمام کے تمام سٹوریج مقامی ایم این اے کے اپنے یا بھر ان کے رشتے داروں کے تھے۔ خود مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی ان میں سے چند ایک کا مالک تھا۔ ’یوں اپنے کیرئیر میں پہلی بار منڈی کی ایک اور جہت میرے سامنے آئی اور میں نے اگلا قدم ان سٹوریجز پر چھاپے کی صورت میں اٹھایا، اس کے بعد ہم لوگوں پر کیا بیتی۔ یہ ایک الگ داستان ہے لیکن کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔ اس کارروائی کے بعد لیموں کی قیمت کم ہو کر نصف رہ گئی اور کیلا ساٹھ روپے فی درجن پر بکنے لگا اس کے بعد آنے والے دنوں میں قیمتیں بڑی حد تک اعتدال پر رہیں۔در اصل اس کھیل کی ابتدا عام طور پر علی الصبح مارکیٹ کمیٹیوں سے ہوتی ہے۔’ٹرکوں، ٹرالیوں اور بعض اوقات ریڑھوں پر لدی اشیا صرف سبزیاں اور پھل رات بھر منڈی میں آڑھیتیوں کے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ لوگ نرخوں کا تعین کرتے ہیں۔ منافع کی شرح عام طور پر تیس فیصد سے شروع ہوکر پچاس فیصد تک اور بعض مخصوص مواقعوں پراس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بازار میں مہنگائی کا نکتہ آغاز یہی ہے۔‘ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بخوبی جانتے ہیں لیکنکاروائی کیوں نہیں کرتے ، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ صرف میں ہی عقل مند نہیں ہر کسی کے سر میں کم از کم پاﺅ بھر دماغ ضرور ہے